وہ مجھے سمجھ ہی نہیں سکی!:میری ایک شادی ناکام ہوگئی۔ ایک سال بعد دوسری شادی ہوئی‘ اس بار کسی حد تک خود کو بدلا مگر اب بھی بھوک کی برداشت نہیں۔ اگر کھانا وقت پر تیار نہ ہو تو باورچی خانے میں جاکر ایک دو برتن توڑ دیتا ہوں۔ غصہ نکل جاتا ہے تو اپنے کمرے میں جاکر سوجاتا ہوں۔ پھر اٹھتا ہوں تو موڈ ٹھیک ہوتا ہے مگر میری بیوی نہیں سمجھتی وہ مجھے سمجھ ہی نہیں سکی۔ کھانا بن جانے کے بعد میز پر لگادیتی ہے اور خود مجھ سے بات نہیں کرتی۔ میں پوچھتا ہوں خفا ہو تو کہتی ہے کہ ہاں خفا ہوں۔ میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔ اس پر مجھے اور غصہ آتا ہے اور میں بھی ناراض ہوجاتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر جائے۔ (فیصل‘ کراچی)
مشورہ: ہونا تو یہ چاہیے کہ ان اسباب پر غور کیا جائے جن کی وجہ سے کھانا بنانے میں دیر ہوتی ہے۔ برتن توڑ دینا‘غصہ پر قابو نہ رکھنا‘ موڈ خراب کرلینا اور پھر یہ توقع کرنا کہ دوسرے شخص پر اس کا اثر اچھا ہو، وہ اپنا مزاج خوشگوار رکھے جیسے کہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ یہ ناممکن ہے آپ کی اپنی بیوی سے توقعات بہت زیادہ ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ شادی کامیاب ہو تو اپنے منفی رویے پر قابو رکھیں۔
صبر اور شکر: کئی دن مسلسل محنت کرنے کے بعد انٹرویو دینے گھر سے نکلا‘ ابھی راستے ہی میں تھا کہ اندھیرا چھانے لگا‘ آندھی آگئی‘ ساتھ ہی طوفانی بارش شروع ہوگئی۔ کپڑے گیلے ہوگئے‘ حلیہ اتنا عجیب ہوگیا کہ گھر واپس آنا پڑا۔ دوستوں کو معلوم ہوا تو خوب ہنسے‘ میں نے سوچا یہ کتنے بے حس ہیں مجھ پر جو گزری وہ میں ہی جانتا ہوں‘ کیامعلوم اب میری قسمت میں کیا لکھا ہے؟ اتنا اچھا موقع ختم ہوگیا۔ یہی خیال آتا رہتا ہے ‘ کسی سے بات کرنےاورکہیں فون کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ذہن پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ (جمشید‘ سیالکوٹ)
مشورہ: بارش، آندھی، طوفان، زلزلہ،برف باری یہ سب قدرت کی طرف سے ہے۔ ان حالات میں ہر انسان کے کام اور مختلف مقاصدمیں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ ان پر کسی کا اختیار نہیں۔اس لیے صبر اوراس کے ساتھ شکر کرلینا اچھا ہے جن حالات کو بدلنے پر اختیار نہیں ان کو قبول کرنا ہی ہے۔ آپ انٹرویو کیلئے جارہے تھے کیا پتہ جاب ملتی یا نہ ملتی۔ حالات تو پہلے بھی غیریقینی تھے‘ لہٰذا پچھتاوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب پہلے سے زیادہ سرگرم ہوکر جاب تلاش کریں۔ زندگی کے مشکل اور ناموافق حالات نئے زینے بن جاتے ہیں جن کے ذریعے ترقی کی جاسکتی ہے۔
قصور پر معذرت : گھر والے کہتے ہیں کہ تم ہمیں برادری میں بیٹھنے اور نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑوگے۔ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ اپنے ساتھ جاب کرنے والی ایک بیوہ خاتون سے شادی کاوعدہ کربیٹھا ہوں۔ ان کے دو بچے ہیں‘ دونوں ہوسٹل میں رہتے ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑی ہیں۔ کتنی بڑی ہیں یہ نہیں معلوم۔ کبھی کبھی میں ان کی باتوں سے گھٹن محسوس کرتا ہوں۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ ان کی تیز مزاجی شوہر کے انتقال کی وجہ ہوگی مگر میں ان کے سامنے مجبور ہوجاتا ہوں اور انکار نہیں کرسکتا۔ (محمد اسلم‘لاہور)
مشورہ:آپ نے گھر والوں کو ناپسندیدگی کے حوالے سے بات شروع کی مگر دراصل ناپسندیدگی آپ کی طرف سے بھی ہے۔جس رشتے کی بنیاد ہی گھٹن،گھبراہٹ مجبوری پر رکھی جائے وہ کس طرح نبھایا جاسکے گا۔ اپنے قصور پر معذرت طلب کرلیں۔ ایک ساتھ مردوخواتین اکثر مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں۔ ان سے ذاتی معاملات پر گفتگو نہ ہی ہو توزیادہ پرسکون ہوکر ذمہ داریاں انجام دی جاسکتی ہیں۔
تکلیف دہ احساس: گھر کے حالات سے مجبور ہوکر میڑک کرتے ہی ایک دفتر میں کمپیوٹر آپریٹر کے فرائض انجام دینے شروع کردئیے‘ دو سال ہوگئے‘ میرے دوست انٹر کرکے مختلف یونیورسٹیوں کا ذکر کرتے ہیں‘ میں ان کے سامنے چپ رہتا ہوں کیونکہ اب وہ مجھ سے بہت آگے نکل گئے ہیں‘ میں ساری زندگی یہ چھوٹی سی ملازمت نہیں کرنا چاہتا مگرکام کیے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ اگر اپنی تعلیم کے برابر لڑکوں سے دوستی رکھتا ہوں تو اس قسم کا تکلیف دہ احساس نہیں ہوتا۔ (ایم اقبال‘ پشاور)
مشورہ: آپ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنےوالے لڑکے بہت آگے نہیں نکلے‘ صرف دوسال کا فرق آیا ہے۔ آپ بھی شام کے اوقات میں پڑھنا شروع کردیں۔ دو سال میں انٹر کرلیں گے‘ اس کے بعد شام کو ہی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں۔ اپنی کیریئر پلاننگ کرتے وقت رجحان کااندازہ بھی لگائیں۔ اگر آپ نے ایسا پیشہ اپنالیا جو ذہنی صلاحیتوں اور دلچسپی کے مطابق ہو توزندگی زیادہ بہتر گزرنے کی امید کی جاسکے گی کیونکہ مرضی کا کام کرتے ہوئے انسان اعصابی تناؤ سے دور رہتا ہے۔
نفسیاتی مریض: ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ آٹھویں تک وہ ٹھیک رہا لیکن اس کے بعد اس نے بغیر کسی وجہ کے کئی کئی دن غائب رہنا شروع کردیا اور اب ایک ماہ بعد گھر آیا ہے۔ امی نفسیاتی مریضہ ہیں‘ ابو بہت بیمار رہتے ہیں۔ بڑی بہن جاب کرتی ہے جیسےتیسے گھر چل رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے بھائی پر کسی نے کچھ کروادیا ہے۔ ایک روز اس کے دوست نے بتایا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے لیکن اس نے کبھی ہم سے کوئی رقم نہیں مانگی۔ بال بڑھ گئے ہیں‘ کپڑے میلے رہتےہیں‘ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں‘ ہم دونوں بہنیں اس کو دیکھ کر روتی رہتی ہیں۔ (غ،ملتان)
مشورہ: بھائی نفسیاتی مریض معلوم ہوتا ہے‘ اس کو اپنے حلیے کی فکر نہیں‘ گھر اور باہر کا احساس نہیں‘ بات بھی صحیح طرح نہیں کرسکتا۔یہ ساری علامات شدید ذہنی نفسیاتی مرض کو ظاہر کررہی ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہےکہ آپ دونوں بہنوں کیلئے اس کا خیال رکھنا‘ علاج کروانا‘ حلیہ درست کروانا بے حد مشکل کام ہے۔ خاندان کے کسی فرد سے مدد لی جاسکتی ہے۔ دراصل شدید ذہنی مریضوں کو لوگ لاعلاج سمجھ کر ان کےحال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ شدید ذہنی امراض کا شکار لوگ بہت بہتر ہوجاتے ہیں لیکن ان کا علاج طویل عرصہ تک ہوتا رہے۔ ان میں اکثر پر ذہنی مرض بار بارحملہ آور ہوتا ہے۔ کیفیت کتنی ہی خراب ہومایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بہتری کیلئے کوشش کرنی ہی ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں